Posts

ایک عورت

 ایک خاتون کی عادت تھی کہ وہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے اپنی دن بھر کی خوشیوں کو ایک کاغذ پر لکھ لیا کرتی تھی۔ ایک شب اس نے لکھا کہ: میں خوش ہوں کہ میرا شوہر تمام رات زور دار خراٹے لیتا ہےکیونکہ وہ زندہ ہے اور میرے پاس ہے نا۔ یہ اللّٰه کا شکر ہے۔ میں خوش ہوں کہ میرا بیٹا صبح سویرے اس بات پر جھگڑا کرتا ہے کہ رات بھر مچھر،کھٹمل سونے نہیں دیتے یعنی وہ رات گھر پہ ہی گزارتا ہے آوارہ گردی نہیں کرتا۔ اس پر بھی اللّٰه کا شکر ہے۔ میں خوش ہوں کہ ہر مہینہ بجلی، گیس، پانی،پٹرول وغیرہ کا اچھا خاصا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے یعنی یہ سب چیزیں میرے پاس میرے استعمال میں ہیں نا۔۔ اگر یہ نہ ہوتی تو زندگی کتنی مشکل ہوتی۔ اس پر بھی اللّٰه کا شکر ہے۔ میں خوش ہوں کہ دن ختم ہونے تک میرا تھکن سے برا حال ہوجاتا ہے یعنی میرے اندر دن بھر سخت کام کرنے کی طاقت ہے نا۔۔۔ اور ی طاقت اور ہمت صرف اللّٰه ہی کے فضل سے ہے۔ میں خوش ہوں کہ روزانہ اپنے گھر کا جھاڑو پونچا کرنا پڑتا ہے اور دروازے کھڑکیاں صاف کرنا پڑتی ہیں شکر ہے میرے پاس گھر تو ہے نا۔۔ جن کے پاس نہیں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ اس پر اللّٰه کا شکر ہے۔ میں خوش ہو
Image
  *ﻧﮉﺭ ﺗﮭﺎ،* *ﺟﺮﻧﯿﻞ ﺗﮭﺎ، ﺗﺎﺟر ﺗﮭﺎ، ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺗﮭﺎ،* ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﻻﯾﺎ ﮔﯿﺎ، *ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﷺ* ﻣﯿﮟ ﺳﺘﻮﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ *،ﺭﺳﻮﻝ ﭘﺎﮎ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ* ```ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ،، ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﭼﮩﺮﮦ، ﻟﻤﺒﺎ ﻗﺪ، ﺗﻮﺍﻧﺎ ﺟﺴﻢ، ﺑﮭﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﺳﯿﻨﮧ، ﺍﮐﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮔﺮﺩﻥ، ﺍﭨﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ، ایک حسین جوان ہے … ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﯽ ﮐﮯ ﺟﺘﻨﮯ ﻋﯿﺐ ﮨﯿﮟ ﺳﺎﺭﮮ ﭘﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺳرکار دوعالم ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﮯ، فرمایا :ﺛﻤﺎﻣﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮ؟ ﺛﻤﺎﻣﮧ ﺑﻮﻻ : ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﺮﮐﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮨﻮ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﻮﮞ؟۔ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﺎﮎ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ نے ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﮐﻮﺋﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﮨﻮ؟ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ : ﻧﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﻭﺍﮦ، ﻧﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺭﺍﺣﺖ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺪﺷﮧ، ﺟﻮ ﺟﯽ ﭼﺎﮨﮯ ﮐﺮ ﻟﻮ، ﺭﺳﻮﻝ ﭘﺎﮎ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ نے ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :  ﺑﮍﺍ ﺗﯿﺰ ﻣﺰﺍﺝ ﺁﺩﻣﯽ ﮨﮯ، ﺍﭘﻨﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﭘﻮﭼﮭﺎ، ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﮐﮫ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ؟ ﻋﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ``` *ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ*  ! ```ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺩﮐﮫ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺛﻤﺎﻣﮧ ﺫﺭﺍ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺁﻧﮑﮫ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺗﻮ صحیح، ﺛﻤﺎﻣﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ : ﮐﯿﺎ ﻧﻈﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ، ﺟﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ، ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺧﻮﻥ ﮐﺎ ﺑﺪﻟﮧ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ،۔``` *حض

اسلام اور مسلمان

”مَیں اُن میں۔۔۔“ (یُوحنّا 17 : 23) اگر ہم میں اور ہمارے خُداوند میں تعلُق اِتنا قریبی ہے تو رابطے کی ندی کِتنی چوڑی اور کِتنی گہری ہوگی! یہ کوئی تنگ سا نل نہِیں ہے جِس سے مشکل سے پانی کے چند قطرے نکل سکیں، بلکہ حیران کن حد تک چوڑی اور گہری ندی ہے جِس کی معرفت زِندگی کا پانی کثرت سے ہم تک پہنچتا ہے۔ دیکھو اُس نے ہمارے سامنے ایک دروازہ کھول رکھّا ہے۔ ہم اُس میں داخِل ہونے میں سُستی نہ کریں۔ رفاقت کے اِس شہر کے بہُت سے پھاٹک ہیں۔ ہر ایک پھاٹک مَوتی کا ہے اور پُوری طرح کھلا ہوا تاکہ استقبال کا یقین کرکے ہم دلیری سے داخِل ہوجائیں۔ اگر مسِیح کے ساتھ بات کرنے کے لئے صِرف ایک چھوٹا سا سوراخ ہوتا تو یہ بھی ہمارے لِئے بڑا اعزاز ہوتا۔ ہم کتنے خُوش قسمت ہیں کہ رفاقت کا بڑا دروازہ بالکل کھُلا ہے۔ اگر خُداوند یِسُوع ہم سے بُہت دُور ہوتا یہاں تک کہ اُس کے اور ہمارے درمِیان تُند و تیز سمندر حائل ہوتا تو ہم آرزُو کرتے کہ کِسی پیغام کی معرفت اُسے اپنی محبّت کا یقین دلائیں اور اُس کی طرف سے کوئی خَبر مِلے۔ لیکِن ذرا اُس کی شفقت کو دیکھیں۔ اُس نے اپنا گھر ہمارے پڑوس میں بنایا بلکہ وہ ہمارے اِس سے بھی ز

ہمارا بھی ایک زمانہ تھا

Image
 *ھمارا بھی  ایک  زمانہ  تھا*  :           پانچویں جماعت تک ھم  سلیٹ  پر جو بھی لکھتے تھے اسے زبان سے چاٹ کر صاف کرتے تھے ، یوں کیلشیم کو دور کرنے کی ہماری گویا پیدایشی عادت تھی ۔۔  پاس یا ناپاس - fail ہمیں صرف یہی معلوم تھا ، کیونکہ فیصد - percentage  سے ھم لا تعلق تھے     ٹیوشن - tution شرمناک بات تھی ، کیونکہ کند ذہن بچوں کے لئے اضافی توجہ یعنی کہ ٹیوشن یہی عام طور پر رایج رہا کتابوں میں پھولوں کی پنکھڑی , یا مور کا پنکھ رکھنے سے ھم ذہین - ہوشیار ھو جاینگے ، یہ ھمارا اعتقاد -بھروسہ تھا کپڑے کی تھیلی میں کتابیں اور بیاضیں سلیقہ سے رکھنا ہمارے سگھر پن اور با صلاحیت ہونے کا ثبوت تھا ھر سال نی جماعت کے کتابیں ، بیاضیں پر کورس -covers چڑھانا جیسے سالانہ تقریب ہوا کرتی تھی والدین ہمارے تعلیم کے تیں زیادہ فکرمند نہ ہوا کرتے تھے ، اور نہ ہی ہماری تعلیم ان پر کوئی بوجھ تھی ، سالہاسال ہمارے والدین ہمارے اسکول کی طرف رخ بھی نہیں کیا کرتے تھے، کیونکہ ہم میں talent - ذہانت جو تھی ایک دوست کے سایکل کے سیٹ کے آگے تو دوسرا پیچھے کیریئر پر بیٹھ کر ھم نہ جانے کتنے راستوں پر بھٹکے ہیں کہ آج یاد بھی نہ

پاکستان یا جرمنی

Image
 دیستان کا تعلق بلجیئم سے تھا یہ 20 سال تک روزانہ کی بنیاد پر سرحد عبور کرکے جرمنی جاتا تھا. یہ اپنی سائیکل پر سرحد عبور کرتا بارڈر پر بیٹھی فورسز ان کی تلاشی لیتی سوائے ایک شاپر جس میں تھوڑی سی مٹی ہوتی ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا،فورسز مٹی سے بھرے شاپر کو کھنگالتی اور چھوڑ دیتی۔ یہ جس راستے سے جرمنی داخل ہوتا واپسی اس راستے سے نہیں آتا تھا. ان کی وفات کے بعد ان کی ڈائری ملی جس کے ایک صفحے پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی۔ "میری بیوی بھی یہ بات نہیں جانتی ہے کہ میں بیس سال تک سائیکلیں سمگلنگ کرتا رہا ہوں" اپنی ذہانت سے بیس سال تک انہوں نے بارڈر سکیورٹی فورسز کو چکمہ دیا،یہ روزانہ نئی سائیکل جرمنی میں چھوڑ آتا تھا،اس دور میں سائیکل جرمنی میں نایاب تھیں اور تب شاید سائیکلیں آج کی گاڑیاں۔ ان کا یہ مقولہ مشہور ہے کہ  اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنے دشمن کے آگے ایسا ہدف شو کریں جو آپ کا ہدف نہیں ہے،اس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے ہدف کا تعاقب کریں۔ ، اس شخص کو دنیا کا ذہین ترین سمگلر سمجھا جاتا ہے امیر علی شاہ ۔

انجام

Image
 ”کسی بات کا اِنجام اُس کے آغاز سے بہتر ہے۔۔۔“ )واعظ (8 : 7 ذرا داؤد کے خُداوند اور مالِک پر نظر کریں۔ اُس کے آغاز کو دیکھیّں۔ وہ ”حقِیر و مردُور، مردِ غمناک اور رنج آشنا تھا۔“ اب اُس کے اِنجام پر نظر کریں۔ وہ اپنے باپ کی دہنی طرف بیٹھے ہُوئے اِس اِنتظار میں ہے کہ اُس کے دُشمن اُس کے پاؤں تلے کی چوکی بنیں۔ ”جیسا وہ ہے ویسے ہی دُنیا میں ہم بھی ہیں“ )1 – یُوحنا .(17 : 4 آپ کو صلِیب اُٹھانے کی ضرُورت ہے، ورنہ کبھی تاج پہننے کا شرف حاصِل نہیں ہوگا۔ آپ کو اِس دُنیا کی کِیچڑ سے گُذرنا ہے، ورنہ آنے والے جہان کی سُنہری سڑکوں پر چلنے کی توفِیق نہیں ملے گی۔ اِس لِئے ہمت کریں۔ کسی بات کا انجام آغاز سے بہتر ہے۔ تِتلی کی پہلی صُورت کو دیکھیّں۔ وہ زمین پر رینگنے والا حقِیر سا کیڑا ہوتی ہے۔ یہ اِس کا آغاز ہے۔ اب اِس میں سے نِکلتی ہُوئی تِتلی پر نظر کریں۔ کتنی خُوبصُورت ہے! ایک پھُول سے دُوسرے کی طرف اُڑتی ہُوئی وہ ہمارے دِل کو کِتنا بہلاتی ہے! یہ اِس کا اِنجام ہے۔ ہم تِتلی کی پہلی کیڑے والی صُورت ہیں۔ اور جب مسِیح ”ظاہِر ہوگا تو ہم بھی اُس کی مانِند ہوں گے کیونکہ اُس کو ویسا ہی دیکھیّں گے جیسا وہ ہ

کافر ‏حکمران ‏

*کافِر حکمران* ‏جرمنی نے اپنے لیڈر کو الوداع کہ دیا۔  وہ اپنی بالکونیوں پر باہر آئی اور انکے اعزاز میں پورے ملک میں  6 منٹ تک کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں گئیں۔ اقتدار کے 16 سالوں میں اینجلا مرکل نے اپنے کسی بھی رشتہ دار کو ریاستی عہدے پر تعینات نہیں کیا۔  اس نے ریئل اسٹیٹ ، کاریں, پلاٹ اور نجی طیارے نہیں خریدے. ‏سولہ16 سال تک ، اس نے اپنی الماری کا انداز کبھی نہیں بدلا۔ ایک پریس کانفرنس میں ، ایک صحافی نے میرکل سے پوچھا: '' ہمیں احساس ہے کہ آپ نے وہی سوٹ پہنا ہوا ہے ، کیا آپ کے پاس دوسرا نہیں ہے؟ '' اس نے جواب دیا: "میں سرکاری ملازم ہوں ، ماڈل نہیں۔  ‏پھر ایک اور صحافی نے پوچھا: "کپڑے دھونے کا کام کون کر رہا ہے ، آپ یا آپ کے شوہر؟" اس کا جواب تھا: "میں کپڑے ٹھیک کر رہی ہوں اور میرا شوہر وہ ہے جو واشنگ مشین چلاتا ہے۔" ایک اور پریس کانفرنس میں ، انہوں نے اس سے پوچھا:  "کیا آپ کے پاس ایک گھریلو ملازمہ ہے جو اپکا گھر صاف کرتی ہے ، کھانا تیار کرتی ہے ، وغیرہ۔" اس کا جواب تھا: "نہیں ، میرے کوئی نوکر نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی ضرورت ہے۔ میرے